میرے گاوں کا چھوٹا سا بس سٹاپ لوگوں اور بھری ہوئی بسوں میں مصروف تھا۔ زمین پر رکھنے کے لیے اور بھی سامان مو جود تھا۔ کنڈکٹر اُن جگہوں کا نام چلا کر بتا رہے تھے کہ بسیں کہاں جا رہی ہیں۔
The small bus stop in my village was busy with people and overloaded buses. On the ground were even more things to load. Touts were shouting the names where their buses were going.
شہر! شہر! مغرب کی جانب! میں نے ایک کنڈکٹر کو چلاتے ہوئے سُنا۔ یہ وہی بس تھی جو میں نے پکڑنی تھی۔
“City! City! Going west!” I heard a tout shouting. That was the bus I needed to catch.
شہر کی بس تقریباً بھر چکی تھی لیکن مزید لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے کو دھکا دے رہے تھے۔ کچھ لو گوں نے اپنا سامان بس کے نیچے رکھا باقیوں نے اپنا سامان اندر بنے خانوں میں رکھ دیا۔
The city bus was almost full, but more people were still pushing to get on. Some packed their luggage under the bus. Others put theirs on the racks inside.
نئے مسافروں نے اپنے ٹکٹ ہاتھوں میں دبائے اور بھری ہوئی بس کا کوئی خالی کونا اپنے لیے ڈھونڈنے لگے جہاں وہ بیٹھ سکیں۔ عورتوں اور چھوٹے بچوں نے اُنہیں لمبے سفر کے لیے سکون پہنچایا۔
New passengers clutched their tickets as they looked for somewhere to sit in the crowded bus. Women with young children made them comfortable for the long journey.
میں آگے جا کر ایک کھڑکی کے پاس بیٹھا۔ میرے آگے بیٹھے آدمی نے سبز رنگ کا ایک پلاسٹک کا تھیلا اپنے ہاتھوں میں دبا رکھا تھا۔ اُس نے پرانے جو تے پہنے تھے، ایک پھٹا ہوا کوٹ اور وہ کافی پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
I squeezed in next to a window. The person sitting next to me was holding tightly to a green plastic bag. He wore old sandals, a worn out coat, and he looked nervous.
میں نے بس سے باہر دیکھا اور مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ میں اپنا گاوں چھوڑ کر جا رہا ہوں، وہ جگہ جہاں میں بڑا ہوا۔ میں ایک بڑے شہر جا رہا تھا۔
I looked outside the bus and realised that I was leaving my village, the place where I had grown up. I was going to the big city.
سامان مکمل ہو چکا تھا اور مسافروں نے اپنی اپنی جگہ لے لی تھی۔ سامان بیچنے والے ابھی بھی دھکا دے کر بس کے اندر اپنا سامان بیچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہر کوئی چلا رہا تھا جو چیز اُس کے پاس بیچنے کے لیے موجود تھی۔ اُن کے الفاظ میرے لیے مزاحیہ تھے۔
The loading was completed and all passengers were seated. Hawkers still pushed their way into the bus to sell their goods to the passengers. Everyone was shouting the names of what was available for sale. The words sounded funny to me.
چند مسافروں نے مشروب خریدے باقیوں نے کھانے والی چیزیں اور اُنہیں چبانا شروع ہو گئے۔ وہ لوگ جن کے پاس میری طرح پیسہ نہیں تھا صرف دیکھتے رہے۔
A few passengers bought drinks, others bought small snacks and began to chew. Those who did not have any money, like me, just watched.
یہ سرگرمیاں بس کے مسلسل ہارن کی وجہ سے متاثر ہو رہی تھیں لیکن یہ ایک نشانی بھی تھی کہ ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔ کنڈکٹر سامان بیچنے والوں پر بہت زور سے چلایا کہ وہ باہر چلے جائیں۔
Hawkers pushed each other to make their way out of the bus. Some gave back change to the travellers. Others made last minute attempts to sell more items.
جیسے ہی بس، بس سٹاپ سے نکلی میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا، میں نے سوچا کہ کیا کبھی میں دوبارہ گاوں واپس آ پاوں گا۔
On the way, I memorised the name of the place where my uncle lived in the big city. I was still mumbling it when I fell asleep.
نو گھنٹوں بعد میں گاوں کے لیے واپس جانے والی لگائی گئی آوازوں کے شور سے نیند سے بیدار ہوا۔ میں نے اپنا چھوٹا سا بیگ دبوچا اور بس سے باہر چھلانگ لگا دی۔
The return bus was filling up quickly. Soon it would make its way back east. The most important thing for me now, was to start looking for my uncle’s house.