Wangari loved being outside. In her family’s food garden she broke up the soil with her machete. She pressed tiny seeds into the warm earth.
سورج غروب ہونے کے فوراً بعد کا وقت اُس کا پسندیدہ وقت تھا۔ جب پودے دیکھنے کے لیے کافی اندھیرا ہو گیا تو ونگاری کو معلوم تھا کہ اب اُسے گھر جانے کا وقت ہے۔ وہ کھیتوں کے درمیان تنگ راستوں سے دریا کو پار کرتی ہوئی نکلی۔
Her favourite time of day was just after sunset. When it got too dark to see the plants, Wangari knew it was time to go home.
She would follow the narrow paths through the fields, crossing rivers as she went.
ونگاری ایک ہوشیار بچی تھی اور سکول جانے کے لیے بے تاب تھی۔ لیکن اُس کی امی اور ابواُسے گھر پر رکھنا چاہتے تھے، تاکہ وہ اُن کی مدد کر سکے۔ جب وہ سات سال کی ہوئی اُس کے بڑے بھائی نے امی ابو کو اس کے سکول جانے کے لیے اُکسایا۔
Wangari was a clever child and couldn’t wait to go to school. But her mother and father wanted her to stay and help them at home.
When she was seven years old, her big brother persuaded her parents to let her go to school.
اُسے سیکھنا پسند تھا۔ ونگاری ہر کتاب کے ساتھ زیا دہ سے زیا دہ سیکھتی۔ اُس کی سکول کی شاندار کار کر دگی کی بنا پر اُسے امریکی ریاست میں پڑھنے کی دعوت ملی۔ ونگاری بہت خوش تھی۔ وہ دنیا کے بارے میں اور جاننا چاہتی تھی۔
She liked to learn! Wangari learnt more and more with every book she read. She did so well at school that she was invited to study in the United States of America.
Wangari was excited! She wanted to know more about the world.
امریکی یونیورسٹی میں ونگاری نے بہت سی نئی چیزیں سیکھیں۔ اُس نے پودوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کیسے اُگتے ہیں۔ اور اُس نے یاد کیا کہ وہ کیسے بڑی ہوئی: اپنے بھائی کے ساتھ کھیل کھیلتے ہوئے کینیا کے جنگلوں کے خوبصورت درختوں کی چھاوں میں۔
At the American university Wangari learnt many new things. She studied plants and how they grow. And she remembered how she grew: playing games with her brothers in the shade of the trees in the beautiful Kenyan forests.
زیا دہ سیکھنے پر، اُس کا یہ احساس بڑھتا چلا گیا کہ وہ کینیا کے لوگوں سے پیار کرتی تھی۔ وہ اُنہیں خوش اور آزاد دیکھنا چاہتی تھی۔ زیا دہ سیکھنے پر اُسے اپنے افریقی گھر کی اور یاد آتی۔
The more she learnt, the more she realised that she loved the people of Kenya. She wanted them to be happy and free.
The more she learnt, the more she remembered her African home.
تعلیم مکمل ہونے پر وہ کینیا لوٹی۔ لیکن اُس کا ملک بدل چکا تھا۔ کھیت زمین پر زیا دہ پھیلے ہوئے تھے۔ عورتوں کے پاس جلانے کے لیے لکڑی نہ تھی جس پر وہ کھانا بنا سکتیں۔ لوگ غریب تھے اور بچے بھوکھے تھے۔
When she had finished her studies, she returned to Kenya. But her country had changed. Huge farms stretched across the land. Women had no wood to make cooking fires. The people were poor and the children were hungry.
ونگاری کو معلوم تھا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔ اُس نے عورتوں کو بیج سے درخت اُگانا سکھائے۔ عورتوں نے درخت بیچے اور اپنے گھروں کی دیکھ بھال کی۔ عورتیں بہت خوش تھیں۔ ونگاری نے اُنہیں مضبوط بننے میں اُن کی مدد کی۔
Wangari knew what to do. She taught the women how to plant trees from seeds. The women sold the trees and used the money to look after their families. The women were very happy. Wangari had helped them to feel powerful and strong.
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ نئے درختوں نے جنگل کی صورت اختیار کر لی اور دریا دوبارہ سے بہنے لگے۔ ونگاری کا پیغام افریقہ میں پھیلنے لگا۔ آج، ونگاری کے بیجوں سے لاکھوں درخت اُگ چکے ہیں۔
As time passed, the new trees grew into forests, and the rivers started flowing again. Wangari’s message spread across Africa. Today, millions of trees have grown from Wangari’s seeds.
ونگاری نے سخت محنت کی۔ دُنیا میں تمام لو گوں نے اُس کے کام پر غور کیا اور اُسے ایک مشہور تحفہ دیا۔ اسے نوبل امن کا تحفہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ تحفہ حاصل کرنے والی وہ پہلی افریقی خاتون تھیں۔
Wangari had worked hard. People all over the world took notice, and gave her a famous prize. It is called the Nobel Peace Prize, and she was the first African woman ever to receive it.
ونگاری 2011 میں وفات پا گئی۔ لیکن جب بھی ہم خوبصورت درخت دیکھتے ہیں ہم اُسے یاد کر سکتے ہیں۔