یہ کھلائی ہے۔ وہ سات سال کی ہے۔ اس کی زبان لبوکوسو میں اس کے نام کا مطلب ہے، ‘بہت اچھا’۔
هَذِهِ خَلَايْ.
عُمُرُهَا سَبْعُ سِنِينَ. مَعْنَى اِسْمِهَا “الشَّخْصُ الجَيِّدُ”.
يُدْعَى فِي لُغَتِهَا “لُوبُوكُوزُو”.
کھلائی اٹھتی ہے اور مالٹوں کے درخت سے بات کرتی ہے۔ ‘براہ کرم مالٹے کے درخت، بڑے ہو جاؤ اور ہمیں بہت زیادہ مالٹے دو۔’
تَسْتَيْقِظُ خَلَايْ كُلَّ صَبَاحٍ وَتَقُولُ لِشَجَرَةِ البُرْتُقَالِ: “أَرْجُوكِ يَا شَجَرَةَ البُرْتُقَالِ، اكْبَرِي، وَاعْطِنَا الكَثِيرَ مِنَ البُرْتُقَالِ الطًازَجِ”.
کھلائی اسکول کی طرف چلتی ہے۔ اور راستے میں وہ گھاس سے بات کرتی ہے۔ ‘براہ کرم گھاس سبز ہو جاو، اور سوکھنا مت۔’
تَمْشِي خَلَايْ إِلَى المَدْرَسَةِ، وَفِي طَرِيقِهَا تَتَحَدَّثُ مَعَ الأَعْشَابِ.
“أَرْجُوكِ أَيَّتُهَا الأَعْشَابُ، اكْبَرِي وَابْقَيْ خَضْرَاءَ وَلَا تَجُفّيِ”.
کھلائی جنگلی پھولوں کے پاس سے گزرتی ہے۔ ‘براہ کرم پھول ترو تازہ رہو تا کہ میں تمہیں اپنے بالوں میں لگا سکوں۔’
تَمُرُّ خَلَايْ أَمَامَ الأَزْهَارِ البَرِّيَّةِ.
“أَرْجُوكِ أَيَّتُهَا الأَزْهَارُ، اِبْقَيْ مُزْهِرَةً لِأَسْتَطِيعَ أَنْ أَضَعَكِ فَوْقَ شَعْرِي”.
اسکول میں کھلائی نے صحن کے وسط میں درخت سے بات کی۔ ‘درخت برائے مہربانی، بڑی شاخیں نکالو تاکہ ہم آپ کے سایہ کے نیچے پڑھ سکیں۔’
فِي المَدْرَسِةِ، تَتَحَدَّثُ خَلَايْ مَعَ الشَّجَرَةِ التِي فِي مُنْتَصَفِ المَبْنَى.
“أَرْجُوكِ أَيَتُهَا اَلشَّجَرَةُ، مُدِّي أَغْصانَكِ الكَبيرَةَ لِنَسْتَطيعَ اَلقِراءَةَ تَحْتَ ظِلِكِ”.
کھلائی اپنے اسکول کے ارد گرد جنگلے سے بات کرتی ہے۔ ‘براہ کرم مضبوط ہو جاؤ اور خراب لوگوں کو آنے سے روک دو۔’
تَتَحَدَثُ خَلَايْ مَع اَلشُّجيراتِ الصَّغيرَةِ.
“أَرجوكِ، اِكْبَري وَكُونِي قَويَّةً لِتَمْنَعِي الأَشْخَاصَ السيِّئينَ مِنَ اَلدُخُولِ”.
جب کھلائی اسکول سے گھر واپس آتی ہے، تو وہ مالٹوں کے درخت کے پاس جاتی ہے کھلائی پوچھتی ہے ‘کیا تمہارے مالٹے پک گئے ا ہے؟’
عِنْدَمَا تَعَودُ خَلَايْ إِلَى البَيْتِ، تَزُورُ شَجَرَةَ اَلبُرتُقالِ، وتَسْأَلُهَا: “أَلَمْ يُصْبِحْ بُرْتُقَالِكِ طَازَجًا بَعْدُ؟”
مالٹے ابھی بھی کچے ہیں کھلائی نے آہ بھری۔ میں تم سے کل ملنے آوں گی مالٹوں کے درخت کھلائی نے کہا۔ شائد تٓب تمہارے پاس میرے لیے ایک رس بھرا مالٹا موجود ہو۔
تَتَنَهَّدُ خَلَايْ: “اَلبُرْتُقالُ لَازَالَ أَخْضَراً”.
ثُمَّ تَقُولُ: “سَوفَ أَرَاكِ يَا شَجَرَةَ اَلبُرْتُقالَ غَداً، بَعْدَهَا رُبَّمَا سَيكُونُ لَدَيْكِ بُرْتُقالاً طَازَجاً لِي”.