دادی کا باغ بہت حیرت انگیز، جوار، باجرے اور کساوا سے بھرا تھا۔ لیکن اُن سب سے بہترین کیلے تھے۔ حالانکہ دادی کے کئی پوتے پوتیاں تھے، لیکن مجھے یہ راز معلوم تھا کہ میں دادی کی سب سے پسندیدہ ہوں۔ وہ اکثر مجھے اپنے گھر پہ مدعو کرتی تھیں۔ وہ مجھے چھوٹے موٹے راز بھی بتاتیں۔ لیکن ایک ایسا راز تھا جو اُنہوں نے مجھے نہیں بتایا کہ اُنہوں نے کیلے پکنے کے لیے کہاں رکھے ہیں۔
ایک دن میں نے دادی کے گھر کے باہر ایک ٹوکری کو سورج کی روشنی میں پڑے ہوئے دیکھا۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ کس لیے ہے تو مجھے صرف یہ جواب ملا کہ یہ میری جادوئی ٹوکری ہے۔ ٹوکری سے آگے کئی کیلوں کے پتے پڑے تھے جو دادی کچھ کچھ دیر بعد پلٹ دیتیں۔ میں تجسس میں تھی کہ یہ پتے کس لیے ہیں؟ مجھے صرف یہ جواب ملا کہ یہ میرے جادوئی پتے ہیں۔
دادی کو، کیلوں کو، کیلوں کے پتوں کو اور اُس بڑی ٹوکری کو دیکھنا بہت دلچسپ تھا۔ لیکن دادی نے مجھے امی کے پاس واپس جانے کو کہا۔ دادی میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے یہ سب دیکھنے دیں جیسے آپ تیار کر رہی ہیں۔ ڈھیٹ مت بنو، بچے، ویسا کرو جیسا تمہیں کہا گیا ہے۔ اُن کے اصرار کرنے پر میں بھاگنے لگی۔
جب میں واپس آئ نہ دادی اور نہ ہی ٹوکری موجود تھی۔ دادی ٹوکری کہاں ہے سارے کیلے کہاں ہیں اور کہاں۔۔۔ لیکن مجھے صرف یہ جواب ملا کہ وہ سب میری جادوئی جگہ میں ہیں۔ یہ سب بہت مایوس کن تھا۔
دو دن بعد دادی نے مجھے اپنے کمرے سے اپنی چلنے والی لکڑی اُٹھانے کے لیے بھیجا۔ جلد از جلد میں نے دروازہ کھولا تو خوب پکے ہوئے کیلوں کی خوشبو نے میرا استقبال کیا۔ اندرونی کمرے میں دادی کا بڑا جادو تھا جو کہ وہ ٹوکری تھی۔ وہ ایک پرانے کمبل کی مدد سے بہت اچھی طرح چھپائی گئی تھی۔ میں نے اُسے اُٹھایا اور اُس کی بے مثال خوشبو سے محزوز ہوئ۔
دادی کی آواز نے مجھے چوکنا کر دیا، تم کیا کر رہی ہو؟ جلدی میری لکڑی لے کر آو۔ میں تیزی سے اُن کی لکڑی لے کر پہنچی۔ تم کس وجہ سے مسکرا رہی ہوَ؟ دادی نے پوچھا؟ اُن کے اس سوال نے مجھے احساس دلایا کہ میں اب بھی اُن کی جادوئی جگہ کو دریافت کرنے پر مسکرا رہی ہوں۔
اگلے دن جب دادی میری امی سے ملنے آئیں۔ میں بھاگتے ہوئے اُن کے گھر پہنچی تاکہ ایک بار پھر کیلوں کو دیکھ سکوں۔ وہاں پر پکے ہوئے کیلوں کا ایک گھچا موجود تھا میں نے اُسے اُٹھایا اور اپنے کپڑوں میں چھپا لیا۔ ٹوکری کو دوبارہ ڈھانپنے کے بعد میں گھر کے پیچھے گئ اور جلدی سے کیلے کھا لیے۔ آج سے پہلے میں نے اتنے لذیذ اور رسیلے کیلے کبھی نہیں کھائے تھے۔
اگلے دن جب دادی باغ میں سبزی چُن رہی تھیں میں نے کیلوں کو دیکھا۔ تقریباً سب پک چکے تھے۔ چار کیلوں کا ایک گچھا اُٹھائے بغیر مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھ رہی تھا تو میں نے دادی کے کھانسنے کی آواز سُنی۔ میں نے کیلوں کو اپنے لباس میں چھپانے کی کو شش کی اور اُن کے پاس سے گزر گئ۔
اگلا دن بازار جانے کا دن تھا۔ دادی جلدی اُٹھ گئیں۔ وہ ہمیشہ کیلے اور کساوے بازار بیچنے لے جاتیں۔ اُس دن میں اُن سے ملنے کی جلدی میں نہیں تھی لیکن میں اُنہیں زیا دہ دیر کے لیے چھوڑ نہ سکی۔
اُس شام بعد میں، مجھے میرے امی ابو اور دادی نے بلایا۔ میں جانتی تھی۔ اُس رات جیسے ہی میں سونے کے لیے لیٹی میں جانتی تھی کہ میں دوبارہ چوری نہیں کروں گی، نہ دادی کے گھر سے، نہ ماں باپ کے گھر سے اور نہ ہی کہیں اور سے۔
This story is brought to you by the Global African Storybook Project, an effort to translate the stories of the African Storybook Project into all the languages of the world.
You can view the original story on the ASP website here