Download PDF
Back to stories list

ماگزوه مگوزوے Magozwe

Written by Lesley Koyi

Illustrated by Wiehan de Jager

Translated by Marzieh Mohammadian Haghighi

Read by Nasim Peikazadi

Language Persian

Level Level 5

Narrate full story

Reading speed

Autoplay story


در شهر شلوغ نایروبی، دور از کانون گرم خانواده گروهی از پسرهای بی خانمان زندگی می‌کردند. آنها روزها را بی هدف سپری می‌کردند. صبح‌ها، درحالیکه پسرها شب قبل را روی پیاده روی سرد خوابیده بودند، زیراندازشان را جمع می کردند. برای مقابله با سرمای روز آشغال می‌سوزاندند تا خود را گرم کنند. ماگزوه دربین آن گروه از پسرها بود. او کوچکترین عضو گروه بود.

نیروبی کے مصروف شہر میں گھر کی دیکھ بھال سے بہت دور ایسے لڑکوں کی ایک ٹولی رہتی تھی جن کے پاس گھر نہیں تھا۔ وہ ہر آنے والے دن کو ایسے ہی گزار دیتے جیسے وہ گزرتا۔ ایک صبح ٹھنڈی سڑک پر سو کر اُٹھنے کے بعد لڑکے اپنے بستر لپیٹ رہے تھے۔ سردی کو بھگانے کے لیے، اُنہوں نے کوڑے کی مدد سے آگ جلائی ہوئی تھی۔ لڑکوں کی ٹولی میں سے سب سے چھوٹا مگوزوے تھا۔

In the busy city of Nairobi, far away from a caring life at home, lived a group of homeless boys. They welcomed each day just as it came. On one morning, the boys were packing their mats after sleeping on cold pavements. To chase away the cold they lit a fire with rubbish. Among the group of boys was Magozwe. He was the youngest.


وقتی که پدر و مادر ماگزوه مردند، او فقط پنج سال داشت. او رفت که با عمویش زندگی کند. این مرد مراقب آن بچه نبود. او غذای کافی به ماگزوه نمی‌داد. او ماگزوه را مجبور می‌کرد که کارهای سخت زیادی انجام دهد.

جب مگوزوے کے والدین نے وفات پائی تو وہ صرف پانچ سال کا تھا۔ وہ اپنے چچا کے ساتھ رہنے کے لیے چلا گیا۔ اُس آدمی نے کبھی بچے کا خیال نہ رکھا۔ وہ مگوزوے کو کبھی پیٹ بھر کھانا نہ دیتا۔ اُس نے بچے سے بہت محنت کروائی۔

When Magozwe’s parents died, he was only five years old. He went to live with his uncle. This man did not care about the child. He did not give Magozwe enough food. He made the boy do a lot of hard work.


اگر ماگزوه شکایت می‌کرد یا سوالی می‌پرسید، عمویش او را می‌زد. وقتی ماگزوه از او پرسید که می‌تواند به مدرسه برود، عمویش او را زد و گفت “تو برای یاد گرفتن هرچیزی خیلی احمق و کودن هستی.” سه سال بعد از این رفتار ماگزوه از خانه ی عمویش فرار کرد. او شروع به زندگی کردن در خیابان کرد.

اگر مگوزوے شکایت کرتا یا سوال اُٹھاتا تو اُس کے چچا اُس کو مارتے۔ جب مگوزوے نے سکول جانے کے لیے پوچھا تو اُس کے چچا نے اُسے مارا اور کہا تم سیکھنے کے قابل نہیں ہو۔ تین سال یہ سب سہنے کے بعد مگوزوے اپنے چچا کے گھر سے بھاگ گیا۔ اُس نے گلی پر رہنا شروع کر دیا۔

If Magozwe complained or questioned, his uncle beat him. When Magozwe asked if he could go to school, his uncle beat him and said, “You’re too stupid to learn anything.” After three years of this treatment Magozwe ran away from his uncle. He started living on the street.


زندگی در خیابان سخت بود و بیشتر پسرها روزانه برای به دست آوردن غذا تلاش می‌کردند. بعضی مواقع بازداشت می شدند، بعضی مواقع کتک می‌خوردند. وقتی مریض بودند، کسی نبود که به آنها کمک کند. آن گروه به پول کمی که ازگدایی، و فروش پلاستیک ها و دیگر مواد بازیافتی، به دست می‌آوردند، وابسته بودند. زندگی حتی سخت تر می‌شد زمانی که گروه های رقیب برای به دست آوردن کنترل شهر با هم می‌جنگیدند.

گلیوں کی زندگی بہت مشکل تھی۔ اور بہت سے لڑکے روزانہ کھانے کے بندوبست کے لیے بہت جدو جہد کرتے۔ کئی مرتبہ وہ گرفتار ہو جاتے، کئی دفعہ اُنہیں مارا پیٹا جاتا۔ جب وہ بیمار پڑتے تو کوئی اُن کی مدد کے لیے نہ آتا۔ لڑکوں کی ٹولی کا گزارا صرف بھیک میں مانگے ہوئے پیسے اور کوڑا کرکٹ میں پڑے پلاسٹک کو بیچنے سے ہوتا۔ زندگی اور بد ترین ہو جاتی جب اُنہیں وہاں رہنے کے لیے وہاں کے باشندوں سے لڑنا پڑتا جو کہ شہر کے باقی حصوں پر بھی حکومت کرنا چاہتے تھے۔

Street life was difficult and most of the boys struggled daily just to get food. Sometimes they were arrested, sometimes they were beaten. When they were sick, there was no one to help. The group depended on the little money they got from begging, and from selling plastics and other recycling. Life was even more difficult because of fights with rival groups who wanted control of parts of the city.


یک روز در حالیکه ماگزوه داشت به درون سطل زباله نگاه می‌کرد، یک کتاب داستان پاره پوره وکهنه پیدا کرد. او کثیفی را از آن پاک کرد و آن را داخل کیسه اش گذاشت. بعد از آن هر روز او کتاب را بیرون می‌آورد وبه تصاویرش نگاه می‌کرد. او نمی‌دانست که چگونه کلمات را بخواند.

ایک دن مگوزوے کوڑے کی ٹوکریاں چھان رہا تھا تو اُسے پھٹی پرانی ایک کہانی کی کتاب ملی۔ اُس نے کتاب سے دُھول جھاڑی اور اُسے اپنے تھیلے میں ڈال لیا۔ ہر روز اُس کے بعد وہ کتاب نکالتا اور اُس پر بنی تصویریں دیکھتا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ الفاظ کو کیسے پڑھنا ہے۔

One day while Magozwe was looking through the dustbins, he found an old tattered storybook. He cleaned the dirt from it and put it in his sack. Every day after that he would take out the book and look at the pictures. He did not know how to read the words.


تصاویر، داستان پسری را نقل می‌کردند که می‌خواست بزرگ شود تا بتواند یک خلبان شود. ماگزوه رویای هر روزش بود که خلبان شود. بعضی اوقات، او تصور می‌کرد که خودش همان پسری است که در داستان بود.

تصاویر ایک ایسے لڑکے کی کہانی پیش کرتیں جو بڑا ہو کر کپتان بننا چاہتا تھا۔ مگوزوے صرف اس کے خواب دیکھ سکتا تھا۔ کچھ وقت کے لیے وہ یہ خیال کر لیتا کہ کہانی میں موجود لڑکا وہ خود ہے۔

The pictures told the story of a boy who grew up to be a pilot. Magozwe would daydream of being a pilot. Sometimes, he imagined that he was the boy in the story.


هوا سرد بود و ماگزوه در ابتدای جاده ایستاده بود. مردی به سمتش رفت. آن مرد گفت، “سلام، من توماس هستم. من نزدیک اینجا کار می‌کنم، در جایی که تومی‌توانی چیزی برای خوردن پیدا کنی.” او به خانه ای زرد با سقف آبی اشاره کرد. او پرسید، “من امیدوار باشم که تو به آنجا بروی و مقداری غذا بگیری؟” ماگزوه به آن مرد وسپس آن خانه نگاه کرد. او گفت، “شاید” و به راهش ادامه داد.

بہت ٹھنڈ تھی اور مگوزوے سڑک پر کھڑا بھیک مانگ رہا تھا۔ ایک آدمی چلتے ہوئے اُس کے پاس آیا۔ ہیلو، میرا نام تھامس ہے۔ میں یہاں نزدیک ہی کام کرتا ہوں۔ ایسی جگہ جہاں تمہیں کھانے پینے کے لیے کچھ آسانی سے مل سکتا ہے آدمی نے کہا۔ اُس نے ایک پیلے گھر کی طرف اشارہ کیا جس کی چھت نیلی تھی۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ تم وہاں کچھ کھانا لینے جاو گے؟ اُس نے پوچھا۔ مگوزوے نے آدمی کی طرف دیکھا اور پھر اُس گھر کی طرف دیکھا۔ شاید! اُس نے کہا، اور چلا گیا۔

It was cold and Magozwe was standing on the road begging. A man walked up to him. “Hello, I’m Thomas. I work near here, at a place where you can get something to eat,” said the man. He pointed to a yellow house with a blue roof. “I hope you will go there to get some food?” he asked. Magozwe looked at the man, and then at the house. “Maybe,” he said, and walked away.


در طول ماهی که سپری شد پسرهای بی خانمان عادت داشتند توماس را در اطراف ببیند. او دوست داشت که با مردم صحبت کند، مخصوصا افرادی که در خیابان زندگی می‌کنند. توماس به داستان زندگی مردم گوش می‌داد. او جدی وصبور بود، هیچوقت گستاخ و بی اذب نبود. بعضی از پسران شروع به رفتن به آن خانه ی زرد و آبی برای گرفتن غذا در نیمروزکردند.

کچھ مہینوں بعد، گھر کے بغیر لڑکوں نے روز تھامس کو اپنے اردگرد دیکھنا شروع کیا اُسے لوگوں سے بات کرنا پسند تھا۔ خاص طور پر اُن لوگوں سے جو گلیوں میں رہتے۔ تھامس اُن سے اُن کی زندگی کی کہانیاں سُنتا۔ وہ بہت سنجیدہ اورصبر میں رہتا اور کبھی اُن سے تلخ کلامی اور بدتمیزی نہ کرتا۔ کچھ لڑکے اُس پیلے اور نیلے گھر میں دوپہر کو کھانا لینے جاتے۔

Over the months that followed, the homeless boys got used to seeing Thomas around. He liked to talk to people, especially people living on the streets. Thomas listened to the stories of people’s lives. He was serious and patient, never rude or disrespectful. Some of the boys started going to the yellow and blue house to get food at midday.


ماگزوه روی پیاده رو نشسته بود وبه کتاب عکس دارش نگاه می‌کرد. وقتی که توماس کنار او نشست پرسید، “داستان در مورد چیست؟” ماگزوه جواب داد، “داستان در مورد پسری است که خلبان شد.” توماس پرسید، “اسم آن پسر چه بود؟” ماگزوه به آرامی گفت، “من نمی‌دانم، من نمی‌توانم بخوانم.”

مگوزوے سڑک پر بیٹھا کتاب میں اپنی تصویر دیکھ رہا تھا۔ جب تھامس آکر اُس کے پاس بیٹھا۔ یہ کہانی کس بارے میں ہے؟ تھامس نے پوچھا۔ یہ ایسے لڑکے کے بارے میں ہے جو کہ کپتان بنا مگوزوے نے جواب دیا۔ اُس لڑکے کا کیا نام ہے؟ تھامس نے اُس سے پوچھا۔ میں نہیں جانتا، میں پڑھ نہیں سکتا مگوزوے نے چپکے سے جواب دیا۔

Magozwe was sitting on the pavement looking at his picture book when Thomas sat down next to him. “What is the story about?” asked Thomas. “It’s about a boy who becomes a pilot,” replied Magozwe. “What’s the boy’s name?” asked Thomas. “I don’t know, I can’t read,” said Magozwe quietly.


وقتی که آنها همدیگر را ملاقات کردند، ماگزوه شروع به گفتن داستان زندگیش برای توماس کرد. آن داستان در مورد عمویش بود و اینکه چرا از دست او فرار کرد بود. توماس زیاد صحبت نکرد و به ماگزوه نگفت که چه کار کند، ولی همیشه با دقت گوش می‌داد. بعضی مواقع آنها با هم حرف می‌زدند در حالیکه در آن خانه با سقف آبی غذا می‌خوردند.

جب وہ ملے، مگوزوے تھامس کو اپنی کہانی بتانے لگا۔ یہ اُس کے چچا کی کہانی تھی کہ وہ وہاں سے کیوں بھاگا۔ تھامس زیا دہ بات نہیں کرتا تھا نہ ہی اُس نے مگوزوے کو بتایا کہ اُسے کیا کرنا چاہیے۔ لیکن وہ اُسے ہمیشہ غور سے سنتا۔ کچھ دیر وہ لوگ چلتے جبکہ وہ نیلی چھت والے گھرمیں کھانا کھاتے۔

When they met, Magozwe began to tell his own story to Thomas. It was the story of his uncle and why he ran away. Thomas didn’t talk a lot, and he didn’t tell Magozwe what to do, but he always listened carefully. Sometimes they would talk while they ate at the house with the blue roof.


نزدیک تولد ده سالگی ماگزوه، توماس یک کتاب داستان جدید به او داد. این داستانی در مورد یک پسر روستایی بود که بزرگ شد تا یک فوتبالیست مشهور شود. توماس آن داستان را برای ماگزوهچندین بار خواند، تا اینکه یک روز گفت، “من فکر می‌کنم زمان به مدرسه رفتن توو یادگیری برای خواندن تو است. تو چی فکر می‌کنی؟” توماس توضیح داد که من جایی را سراغ دارم که بچه ها می‌توانند در آنجا بمانند، و به مدرسه بروند.

مگوزوے کی دسویں سالگرہ پر تھامس نے اُس کو ایک نئی کہانی کی کتاب تحفے میں دی۔ یہ کہانی ایک گاؤں کے لڑکے کے بارے میں تھی۔ جو کہ بڑا ہو کر ایک مشہور فٹبالر بننا چاہتا تھا۔ تھامس نے مگوزوے کو وہ کہانی کئی بار پڑھ کر سُنائی۔ حتیٰ کہ ایک دن اُس نے کہا میرے خیال سے تمہیں سکول جانا چاہیے اور پڑھنا لکھنا سیکھنا چاہیے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ تھامس نے اُسے تفصیل سے بتایا کہ وہ ایک جگہ کے بارے میں جانتا ہے جہاں بچے رہ سکتے ہیں اور سکول جا سکتے ہیں۔

Around Magozwe’s tenth birthday, Thomas gave him a new storybook. It was a story about a village boy who grew up to be a famous soccer player. Thomas read that story to Magozwe many times, until one day he said, “I think it’s time you went to school and learned to read. What do you think?” Thomas explained that he knew of a place where children could stay, and go to school.


ماگزوه در مورد این مکان جدید و رفتن به مدرسه فکر کرد. اما اگر عمویش درست گفته باشد و او برای یاد گرفتن هر چیزی خیلی کودن باشد چی؟ اما اگر در این جای جدید او را کتک بزنند چی؟ او ترسیده بود. او با خود فکر کرد، “شاید بهتر باشد که به زندگی کردن در خیابان ادامه دهد.”

مگوزوے نے اُس نئی جگہ اور سکول جانے کے بارے میں سوچا، کیا ہو اگر اُس کے چچا کی کہی بات ٹھیک نکلی اور وہ واقعی پڑھ لکھ نہ سکا؟ کیا ہوگا اگر اُس نئی جگہ پر اُسے مار پڑی؟ وہ خوف ذدہ تھا کہ شاید گلی میں رہنا ہی بہتر ہے اُس نے سوچا۔

Magozwe thought about this new place, and about going to school. What if his uncle was right and he was too stupid to learn anything? What if they beat him at this new place? He was afraid. “Maybe it is better to stay living on the street,” he thought.


او ترس هایش را با توماس در میان گذاشت. به مرور زمان توماس به ماگزوه اطمینان داد که زندگی در محیط جدید می‌تواند بهتر باشد.

اُس نے اپنے ڈر تھامس سے بانٹے۔ تھامس نے اُسے بار ہا یقین دلایا کہ تمہیں زندگی نئی جگہ پر بہت اچھی ہوگی۔

He shared his fears with Thomas. Over time the man reassured the boy that life could be better at the new place.


و بنابراین ماگزوه به اتاقی در خانه ای باسقف سبز رفت. او در آن اتاق با دو پسر دیگر شریک بود. روی هم رفته ده بچه در آن خانه زندگی می‌کردند. همراه با آنتی سیسی، سه سگ، یک گربه ویک بزغاله ی پیر.

اور اس طرح مگوزوے ایک نئے کمرے میں داخل ہوا جس کی چھت سبز تھی۔ وہاں اُس نے دو اور لڑکوں کے ساتھ کمرہ بانٹا۔ اُس گھر میں کل دس بچے رہتے تھے۔ آنٹی سیسی اور اُن کے خاوند، تین کتے، ایک بلی اور ایک بوڑھی بکری کے سمیت۔

And so Magozwe moved into a room in a house with a green roof. He shared the room with two other boys. Altogether there were ten children living at that house. Along with Auntie Cissy and her husband, three dogs, a cat, and an old goat.


ماگزوه مدرسه را شروع کرد، مدرسه سخت بود. او چیزهای زیادی برای یاد گرفتن داشت. بعضی مواقع می‌خواست که تسلیم شود. ولی او به آن خلبان و آن فوتبالیست در کتاب داستان فکر می‌کرد. آنها را دوست داشت، او تسلیم نمی‌شد.

مگوزوے نے سکول جانا شروع کیا جو کہ مشکل تھا۔ اُسے بہت کچھ سیکھنا تھا کبھی کبھار وہ سب چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ لیکن اُس نے اُس فٹبالر اور کپتان کے بارے میں سوچا جو کہ کہانیوں میں موجود تھے۔ اُن کی طرح اُسے ہار نہیں ماننی تھی۔

Magozwe started school and it was difficult. He had a lot to catch up. Sometimes he wanted to give up. But he thought about the pilot and the soccer player in the storybooks. Like them, he did not give up.


ماگزوه در حیاط خانه ی با سقف آبی نشسته بود وداشت یک کتاب داستان از مدرسه می‌خواند. توماس آمد وکنارش نشست. توماس پرسید، “موضوع داستان چیست؟” ماگزوه در جواب گفت، “داستان در مورد پسری است که معلم شد.” توماس پرسید، “اسم آن پسر چیست؟” ماگزوه با لبخند گفت، “اسم آن پسر ماگزوه است.”

مگوزوے سبز چھت والے گھر کے باغیچے میں بیٹھا ایک کہانی کی کتاب پڑھ رہا تھا جو کہ اُسے سکول کی طرف سے ملی تھی۔ تھامس اُس کے پاس آکر بیٹھا۔ کہانی کس بارے میں ہے؟ تھامس نے پوچھا؟ یہ ایک ایسے لڑکے کے بارے میں ہے جو اُستاد بننا چاہتا تھا۔ مگوزوے نے جواب دیا۔ اُس لڑکے کا نام کیا ہے؟ تھامس نے پوچھا؟ اُس کا نام مگوزوے ہے، اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

Magozwe was sitting in the yard at the house with the green roof, reading a storybook from school. Thomas came up and sat next to him. “What is the story about?” asked Thomas. “It’s about a boy who becomes a teacher,” replied Magozwe. “What’s the boy’s name?” asked Thomas. “His name is Magozwe,” said Magozwe with a smile.


Written by: Lesley Koyi
Illustrated by: Wiehan de Jager
Translated by: Marzieh Mohammadian Haghighi
Read by: Nasim Peikazadi
Language: Persian
Level: Level 5
Source: Magozwe from African Storybook
Creative Commons License
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.
Read more level 5 stories:
Options
Back to stories list Download PDF