یہ ایک شہد خور چڑیا نگیدے اور ایک لالچی آدمی گنگیلے کی کہانی ہے۔ ایک دن جب گنگیلے شکار کے لیے باہر تھا اُس نے نگیدے کی پکار سُنی۔ گنگیلے کے منہ میں پانی بھر گیا جب اُس نے شہد کے بارے میں سوچا۔ وہ رُک گیا اور اُس نے غور سے سُنا۔ جب تک کہ اسے اپنے سر کے اوپر موجود ٹہنیوں پہ بیٹھا پرندہ دکھائی نہیں دیا۔ چٹک۔ چٹک۔ چٹک۔ چھوٹا پرندہ چہچہایا جیسا کہ وہ اگلے اور اس سے اگلے درخت پر جا کر بیٹھا۔ چٹک۔ چٹک۔ چٹک۔ اُس نے بلایا۔ وقتاً فوقتآً وہ اس بات کو یقینی بنا رہا تھا کہ گنگیلے اُس کے پیچھے ہے۔
This is the story of Ngede, the Honeyguide, and a greedy young man named Gingile.
One day while Gingile was out hunting he heard the call of Ngede. Gingile’s mouth began to water at the thought of honey. He stopped and listened carefully, searching until he saw the bird in the branches above his head.
“Chitik-chitik-chitik,” the little bird rattled, as he flew to the next tree, and the next.
“Chitik, chitik, chitik,” he called, stopping from time to time to be sure that Gingile followed.
آدھے گھنٹے کے بعد، وہ ایک بڑے انجیرکے درخت کے پاس پہنچے۔ اُس نے پاگلوں کی طرح ٹہنیاں چھانی۔ اور پھر وہ ایک ٹہنی پر آ کر رُک گیا جیسا کہ وہ گنگیلے سے کہنا چاہتا ہو اب آو! یہ رہا! تمہیں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے۔ گنگیلے کو درخت کے نیچے کوئی مکھیاں دکھائی نہ دیں، لیکن اُس نے نگیدے پر بھروسہ کیا۔
After half an hour, they reached a huge wild fig tree.
Ngede hopped about madly among the branches. He then settled on one branch and cocked his head at Gingile as if to say, “Here it is! Come now! What is taking you so long?”
Gingile couldn’t see any bees from under the tree, but he trusted Ngede.
اس لیے گنگیلے نے اپنا ہتھیار درخت کے نیچے رکھ دیا اور کچھ سوکھی لکڑیاں اکھٹی کر کے آگ جلائی۔ جب آگ ٹھیک سے جل رہی تھی اُس نے ایک لمبی سوکھی لکڑی درمیان میں رکھ دی۔ یہ لکڑی جلنے پر بہت سا دھواں دینے کے لیے جانی جاتی ہے۔ دوسری طرف سے لکڑی کا ٹھنڈا حصہ دانتوں میں پکڑے درخت پے چرھنے لگا۔
So Gingile put down his hunting spear under the tree, gathered some dry twigs and made a small fire.
When the fire was burning well, he put a long dry stick into the heart of the fire. This wood was especially known to make lots of smoke while it burned.
He began climbing, holding the cool end of the smoking stick in his teeth.
جلد ہی اُسے مصروف مکھیوں کی آواز آنا شروع ہوئی۔ وہ درخت میں ایک سوراخ میں سے آ جا رہیں تھیں جو کہ اُن کا چھتہ تھا۔ جب گنگیلے چھتے کے پاس پہنچا اُس نے لکڑی کا جلتا ہوا حصہ مکھیوں کے چھتے میں ڈال دیا۔ مکھیاں غصے سے بھنھبناتی ہوئیں چھتے سے باہر نکلیں۔ وہ اُڑ گئیں کیونکہ اُنہیں دھواں پسند نہیں۔ لیکن اس سے پہلے نہیں جب تک وہ گنگیلے کو کچھ درد ناک ڈنگ نہ مار لیتیں۔
Soon he could hear the loud buzzing of the busy bees. They were coming in and out of a hollow in the tree trunk – their hive.
When Gingile reached the hive he pushed the smoking end of the stick into the hollow.
The bees came rushing out, angry and mean. They flew away because they didn’t like the smoke – but not before they had given Gingile some painful stings!
جب مکھیاں باہر نکل گئیں، گنگیلے نے اپنا ہاتھ چھتے میں ڈالا اورچھتے کے حصوں کو باہر نکالا جو کہ شہد سے بھرے ہوئے تھے اور چربی سے بھرے سفید گربوں کو بھی باہر نکالا۔ اس نے شہد سے بھرے چھتے کو اپنے تھیلے میں رکھا اور کندھے پر پہن لیااور درخت سے نیچے اُترنا شروع کر دیا۔
When the bees were out, Gingile pushed his hands into the nest. He took out handfuls of the heavy comb, dripping with rich honey and full of fat, white grubs.
He put the comb carefully in the pouch he carried on his shoulder, and started to climb down the tree.
نگیدے یہ سب بہت شوق سے دیکھ رہا تھا جو کچھ گنگیلے کر رہا تھا۔ وہ انتظار میں تھا کہ بطور شہد خور چڑیا شکریہ کے طور پر وہ اُس کو شہد دے گا۔ نگیدے ایک شاخ سے دوسری شاخ نزدیک سے نزدیک زمین پر اُس کے پاس جانے کی کو شش میں تھا۔ آخر کار گنگیلے درخت سے نیچے اُتر آیا۔ نگیدے اُس کے پاس پڑے ایک پتھر پر آکر روکا اور اپنے انعام کا انتظار کیا۔
Ngede eagerly watched everything that Gingile was doing. He was waiting for him to leave a fat piece of honeycomb as a thank-you offering to the Honeyguide.
Ngede flittered from branch to branch, closer and closer to the ground. Finally Gingile reached the bottom of the tree.
Ngede perched on a rock near the boy and waited for his reward.
لیکن گنگیلے نے آگ بجھائی، اپنا ہتھیار اُٹھایا اور گھر کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ پرندے کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ نگیدے نے غصے سے پکارا۔ وِک۔ تور! وِک تور! گنگیلے رکا پرندے کو گھورا اور زور سے ہنسا۔ تمہیں شہد چاہیے؟ واقعی میرے دوست؟ آہ لیکن میں نے خود سارا کام کیا اور ڈنگ کا درد سہا۔ تو میں یہ مزیدار شہد تمہارے ساتھ کیوں بانٹوں؟ اور وہ چلا گیا۔ نگیدے شدید غصے میں تھا اُسے اُس کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ اپنا بدلہ لے گا۔
But, Gingile put out the fire, picked up his spear and started walking home, ignoring the bird.
Ngede called out angrily, “VIC-torr! VIC-torrr!”
Gingile stopped, stared at the little bird and laughed aloud. “You want some honey, do you, my friend? Ha! But I did all the work, and got all the stings. Why should I share any of this lovely honey with you?” Then he walked off.
Ngede was furious! This was no way to treat him! But he would get his revenge.
ایک دن کئی ہفتوں کے بعد گنگیلے نے نگیدے کی شہد کے لیے پکار سُنی۔ اُسے مزیدار شہد یاد تھا، اور اُس نے تیزی سے پرندے کا پیچھا کیا۔ نگیدے کو جنگل کے کنارے پر لا کر وہ رک گیا جہاں کانٹوں کا ایک جھاڑ موجود تھا۔ آہ۔ گنگیلے نے سوچا کہ شہد کا چھتا اسی درخت میں ہو گا۔ اُس نے جلدی سے آگ جلائی اوردانتوں میں جلتی ہوئی لکڑی کو دبائے درخت پر چڑھنے لگا۔ نگیدے بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔
One day several weeks later Gingile again heard the honey call of Ngede. He remembered the delicious honey, and eagerly followed the bird once again.
After leading Gingile along the edge of the forest, Ngede stopped to rest in a great umbrella thorn. “Ahh,” thought Gingile. “The hive must be in this tree.” He quickly made his small fire and began to climb, the smoking branch in his teeth. Ngede sat and watched.
درخت چڑھتے ہوئے گنگیلے نے غور کیا کہ اُسے مکھیوں کی بھنھنانے کی آواز کیوں نہیں آ رہی۔ شاید چھتا درخت کی بہت گہرائی میں تھا۔ اُس نے سوچا۔ لیکن چھتے کے بجائے وہ ایک چیتی کے چہرے کو گھور رہا تھا۔ چیتی اپنی نیند کے اتنے خراب ہونے پر بہت غصہ تھی۔ اُس نے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کرتے ہوئے منہ کھولا تا کہ وہ اپنے بڑے اور تیز دانت دکھا سکے۔
Gingile climbed, wondering why he didn’t hear the usual buzzing. “Perhaps the hive is deep in the tree,” he thought to himself. He pulled himself up another branch. But instead of the hive, he was staring into the face of a leopard!
Leopard was very angry at having her sleep so rudely interrupted. She narrowed her eyes, opened her mouth to reveal her very large and very sharp teeth.
اس سے پہلے کہ چیتی اس پر حملہ کرتی۔ گنگیلے درخت سے نیچے اُتر آیا۔ جلد بازی میں اُس نے ایک ٹہنی چھوڑی جس وجہ سے وہ سیدھا زمین پر آگرا اور اُس کا پاوں مڑ گیا۔ وہ تیزی سے فرار ہوا۔ خوشقسمتی سے چیتی نیند میں ہونے کی وجہ سے اُس کا پیچھا نہ کر پائی۔ نگیدے، شہد خور چڑیا نے اپنا بدلہ لے لیا۔ اور گنگیلے نے سبق سیکھ لیا۔
Before Leopard could take a swipe at Gingile, he rushed down the tree.
In his hurry he missed a branch, and landed with a heavy thud on the ground twisting his ankle. He hobbled off as fast as he could. Luckily for him, Leopard was still too sleepy to chase him. Ngede, the Honeyguide, had his revenge.
And Gingile learned his lesson.
اور جب گنگیلے کے بچوں نے نگیدے کی کہانی سُنی اُن کے دل میں چھوٹے پرندے کے لیے عزت پیدا ہوئی۔ جب کبھی وہ شہد اُتارتے وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ چھتے کا سب سے بڑا حصہ وہ شہد خور چڑیا کے لیے چھوڑ دیں گے۔
And so, when the children of Gingile hear the story of Ngede they have respect for the little bird. Whenever they harvest honey, they make sure to leave the biggest part of the comb for Honeyguide!