As the shape moved closer, she saw that it was a heavily pregnant woman.
شرماتے ہوئے لیکن وہ بہادر لڑکی اُس عورت کے قریب گئی۔ ہمیں اسے اپنے پاس رکھنا چاہیے۔ چھوٹی لڑکی کے لوگوں نے فیصلہ کیا۔ ہم اسے اور اس کے بچے کو محفوظ رکھیں گے۔
Shy but brave, the little girl moved nearer to the woman.
“We must keep her with us,” the little girl’s people decided. “We’ll keep her and her child safe.”
بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ زور لگاو! کمبل لے آو! پانی لاو! زور لگاو!
But when they saw the baby, everyone jumped back in shock.
“A donkey?!”
سب لوگ بحث کرنے لگے۔ ہم نے کہا کہ ہم ماں اور بچے کو حفاظت سے رکھیں گے اور یہ ہی کریں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا۔ لیکن یہ ہمارے لیے بد شگون ہیں۔ باقی کچھ نے کہا۔
Everyone began to argue.
“We said we would keep mother and child safe, and that’s what we’ll do,” said some.
“But they will bring us bad luck!” said others.
اور اس طرح عورت نے خود پھر اکیلا پایا۔ وہ حیران تھی کہ وہ اس عجیب بچے کے ساتھ کیا کرے۔ وہ اس بات پر بھی حیران تھی کہ وہ اپنے ساتھ کیا کرے۔
But finally she had to accept that he was her child and she was his mother.
اب اگر بچہ چھوٹا رہتا تو ہر چیز مختلف ہوتی۔ لیکن گدھا بچہ بڑے سے بڑا ہوتا گیا حتیٰ کہ وہ اپنی ماں کی پیٹھ پر پورا نہ آتا۔ اور باوجود اس کے کہ اُس نے بہت کوشش کی لیکن وہ ایک انسان کی طرح برتاو نہ کر سکتا۔ اُس کی ماں اکثر تھک جاتی اور تنگ آجاتی۔ بعض اوقات وہ اُس سے جانوروں والے کام کرواتی۔
Now, if the child had stayed that same, small size, everything might have been different. But the donkey child grew and grew until he could no longer fit on his mother’s back.
And no matter how hard he tried, he could not behave like a human being. His mother was often tired and frustrated. Sometimes she made him do work meant for animals.
کشیدگی اور غصہ گدھے میں بڑھتا چلا گیا، وہ یہ نہیں کر سکتا تھا وہ، وہ نہیں کر سکتا تھا، وہ ایسا نہیں ہو سکتا تھا، وہ ویسا نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ اتنا غصہ ہوا کہ ایک ان اُس نے اپنی ماں کو لات مار کر میدان میں پھینکا۔
Confusion and anger built up inside Donkey. He couldn’t do this and he couldn’t do that. He couldn’t be like this and he couldn’t be like that.
He became so angry that, one day, he kicked his mother to the ground.
گدھا بہت شرمندہ تھا۔ اُس نے بھاگنا شروع کیا، جتنا تیز اور جتنا دور وہ بھاگ سکتا تھا۔
Donkey was filled with shame. He started to run away as far and fast as he could.
وقت کے ساتھ اُس نے بھاگنا بند کیا، رات ہو چکی تھی اور گدھا کھو گیا تھا۔ ہی ہا؟ وہ اندھیرے میں سر سرایا۔ ہی ہا؟ آواز واپس گونجی۔ وہ اکیلا تھا خود کو ایک گیند کی طرح گول کر کے وہ ایک گہری اور درد ناک نیند میں سو گیا۔
By the time he stopped running, it was night, and Donkey was lost.
“Hee haw?” he whispered to the darkness.
“Hee Haw?” it echoed back. He was alone.
Curling himself into a tight ball, he fell into a deep and troubled sleep.
گدھا اُٹھا اور اُس نے ایک بوڑھے آدمی کو اُس کی طرف نیچے گھورتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے اُس بوڑھے آدمی کی آنکھوں میں دیکھا تو اُسے ایک اُمید کی کرن نظر آئی۔
Donkey woke up to find a strange old man staring down at him. He looked into the old man’s eyes and started to feel a twinkle of hope.
گدھا اُس بوڑھے آدمی کے ساتھ رہنے چلا گیا جس نے اُسے رہنے کے لیے کئی طریقے سیکھائے۔ گدھا سُنتا اور سیکھتا جس سے وہ بوڑھا آدمی بھی سیکھتا۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے اور مل کر ہنستے۔
Donkey went to stay with the old man, who taught him many different ways to survive.
Donkey listened and learned, and so did the old man. They helped each other, and they laughed together.
ایک صبح، بوڑھے آدمی نے گدھے سے اُسے پہاڑی کی چوٹی پر لے جانے کے لیے کہا۔
گدھے نے اپنی ماں کو اکیلا اور اپنے کھوئے ہوئے بچے کے لیے افسوس کرتے ہوئے پایا۔ وہ دونوں دیر تک ایک دوسرے کو گھورتے رہے اور پھر ایک دوسرے کو بہت زور سے گلے لگالیا۔
The donkey child and his mother have grown together and found many ways of living side by side.
Slowly, all around them, other families have started to settle.