جب سمبیگویرے کی ماں مر گئی تو وہ بہت اداس تھی۔ سمبیگویرے کے والد نے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کی۔ آہستہ آہستہ، انہوں نے سمبیگویرے کی ماں کے بغیر دوبارہ خوشی محسوس کرنا سیکھ لیا۔ ہر روز انہوں نے بیٹھ کر دن کے بارے میں بات کی۔ ہر شام انہوں نے ایک ساتھ رات کا کھانا بنایا۔ انہوں نے برتن دھونے کے بعد، سمبیگویرے کے والد نے اسے گھر کے کام میں اُس کی مدد کی۔
When Simbegwire’s mother died,
she was very sad. Simbegwire’s
father did his best to take care of
his daughter. Slowly, they learned
to feel happy again, without
Simbegwire’s mother.
Every morning they sat and talked
about the day ahead. Every evening
they made dinner together. After
they washed the dishes,
Simbegwire’s father helped her with
homework.
ایک دن، سمبیگویرے کے والد معمول سے ہٹ کر گھر آ گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ ‘میرے بچے تم کہاں ہو؟’ سمبیگویرے اپنے باپ کی طرف بھاگی۔ وہ اپنے باپ کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ میں دیکھ کر رک گئی۔ میرے بچے میں تمہیں۔ کسی خاص انسان سے ملوانا چاہتا ہوں۔ یہ انیتا ہیں اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
One day, Simbegwire’s father came
home later than usual. “Where are
you my child?” he called.
Simbegwire ran to her father. She
stopped still when she saw that he
was holding a woman’s hand. “I
want you to meet someone special,
my child. This is Anita,” he said
smiling.
انیتا نے کہا ‘ہیلو سمبیگویرے، آپ کے والد نے مجھے آپ کے بارے میں بہت کچھ بتایاہے’۔ لیکن نہ وہ مسکرائی اورنہ لڑکی سے ہاتھ ملایا۔ سمبیگویرے کے والد خوش تھے۔ انہوں نے ان تینوں کے مل کررہنے کے بارے میں بات کی، اور ان کی زندگی کتنی اچھی ہوگی۔ انہوں نے کہا، ‘میرا بچہ، مجھے امید ہے کہ آپ انیتا کو آپنی ماں کے طور پر قبول کریں گی’۔
“Hello Simbegwire, your father told
me a lot about you,” said Anita. But
she did not smile or take the girl’s
hand.
Simbegwire’s father was happy and
excited. He talked about the three
of them living together, and how
good their life would be. “My child, I
hope you will accept Anita as your
mother,” he said.
سمبیگویرے کی زندگی بدل گئی۔ اب اُسے اپنے والد کے ساتھ صبح بیٹھنے کا زیادہ وقت نہیں ملتا تھا۔ انیتا نے اسے بہت سے گھریلو کاموں میں لگا دیا تھا وہ اتنا تھک جاتی کہ شام میں اپنے سکول کا کام بھی نہ کر پاتی۔ وہ کھانا کھانے کے بعد سیدھا اپنے بستر کی طرف چلی جاتی۔ اُس کی زندگی میں سکون کی وجہ صرف اُس کی ماں کی طرف سے دیا گیا ایک خوبصورت کمبل تھا۔ سمبیگویرے کے والد اس بات کا اندازہ نہ لگا سکے کہ اُن کی بیٹی نا خوش ہے۔
Simbegwire’s life changed. She no
longer had time to sit with her
father in the mornings. Anita gave
her so many household chores that
she was too tired to do her school
work in the evenings. She went
straight to bed after dinner.
Her only comfort was the colourful
blanket her mother gave her.
Simbegwire’s father did not seem to
notice that his daughter was
unhappy.
چند ماہ کے بعد، سمبیگویرے کے والد نے ان سے کہا کہ وہ کچھ عرصہ گھر سے دور رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ‘مجھے اپنے نوکری کے لیے سفر کرنا ہے۔’ ‘لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔’ سمبیگویرے کا چہرہ اُتر گیا، لیکن اس کے والد نے غور نہیں کیا۔ انیتا نے کچھ بھی نہیں کہاوہ بھی نا خوش تھی۔
After a few months, Simbegwire’s
father told them that he would be
away from home for a while. “I have
to travel for my job,” he said. “But I
know you will look after each other.”
Simbegwire’s face fell, but her
father did not notice. Anita did not
say anything. She was not happy
either.
سمبیگویرے کے لئے صورتحال اور خراب ہو گئی۔ اگر وہ اپنے کام وقت پر ختم نہ کرتی یا شکایت کرتی تو انیتا اُسے مارتی۔ اور کھانے کے وقت وہ خود زیا دہ کھاتی اور سمبیگویرے کو بچے ہوئے چند ٹکڑے دیتی۔ ہر رات سمبیگویرے سونے سے پہلے اپنی ماں کے دیے ہوے کمبل کو سینے سے لگا کے روتی۔
Things got worse for Simbegwire. If
she didn’t finish her chores, or she
complained, Anita hit her. And at
dinner, the woman ate most of the
food, leaving Simbegwire with only
a few scraps.
Each night Simbegwire cried herself
to sleep, hugging her mother’s
blanket.
ایک صبح سمبیگویرے دیر سے اُٹھی۔ ّسست لڑکیٗ! انیتا چلائی۔ اُس نے اُسے بستر سے دھکا دے کر نیچے گرایا۔ قیمتی کمبل کیل سے اٹک کر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
One morning, Simbegwire was late
getting out of bed. “You lazy girl!”
Anita shouted. She pulled
Simbegwire out of bed. The
precious blanket caught on a nail,
and tore in two.
سمبیگویرے بہت پریشان تھی۔ اس نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی ماں کے کمبل کے ٹکڑوں کو لے لیا، کچھ کھانا پکڑا اور گھر چھوڑ دیا۔ اُس نے اپنے والد کی اختیار کی گئی سڑک پر چلنا شروع کر دیا۔
Simbegwire was very upset. She
decided to run away from home.
She took the pieces of her mother’s
blanket, packed some food, and left
the house. She followed the road
her father had taken.
جب شام ہوئی تو وہ ایک ندی کے قریب لمبے درخت پر چڑھ کر شاخوں میں خود اپنا بستر بنا یا۔ اور گانا گاتے ہوئے سو گئی ‘امی، امی، امی، آپ نے مجھے چھوڑ دیا۔ آپ نے مجھے چھوڑ دیا اور واپس کبھی نہیں آئیں۔ ابّا اب مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ ماں، آپ کب واپس آ رہی ہیں؟ آپ نے مجھے چھوڑ دیا۔’
When it came to evening, she
climbed a tall tree near a stream
and made a bed for herself in the
branches.
As she went to sleep, she sang:
“Maama, maama, maama, you left
me.
You left me and never came back.
Father doesn’t love me anymore.
Mother, when are you coming back?
You left me.”
اگلی صبح، سمبیگویرے نے گانا دوبارہ گانا شروع کر دیا۔ جب خواتین اپنے کپڑے ندی میں دھونے کے لئے آئیں تو اُنہوں نے غمگین گانے کی آوازسُنی جو کہ لمبے درخت سے آ رہی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ یہ صرف ہوا سے ہلتے ہوئے پتوں کی آواز ہے اور اپنا کام جاری رکھا۔ لیکن اُن میں ایک عورت نے غور سے اُس گانے کو سُنا۔
The next morning, Simbegwire sang
the song again. When the women
came to wash their clothes at the
stream, they heard the sad song
coming from the tall tree.
They thought it was only the wind
rustling the leaves, and carried on
with their work. But one of the
women listened very carefully to
the song.
اس عورت نے درخت میں دیکھا۔ جب اس نے لڑکی اور رنگا رنگ کمبل کے ٹکڑوں کو پکڑے دیکھا، اُس نے پکارا، ‘میرے بھائی کی بچی!’ باقی عورتوں کپڑے دھونا بند کیا اور سمبیگویرے کو درخت سے سے نیچے اُتارنے میں مدد کی۔ اُس کی خالہ نے اُسے گلے سے لگایا تاکہ وہ راحت محسوس کرے۔
This woman looked up into the tree.
When she saw the girl and the
pieces of colourful blanket, she
cried, “Simbegwire, my brother’s
child!”
The other women stopped washing
and helped Simbegwire to climb
down from the tree. Her aunt
hugged the little girl and tried to
comfort her.
سمبیگویرے کی پھپھو بچی کو اپنے گھر لے گئی۔ اس نے سمبیگویرے کو گرم کھانا دیا۔ اور اس کی ماں کے کمبل کے ساتھ بستر میں سلا دیا۔ اس رات، سمبیگویرے روئی اور سو گئی۔ لیکن وہ راحت کے آنسو تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی پھپھو اس کی دیکھ بھال کریں گی۔
Simbegwire’s aunt took the child to
her own house. She gave
Simbegwire warm food, and tucked
her in bed with her mother’s
blanket.
That night, Simbegwire cried as she
went to sleep. But they were tears
of relief. She knew her aunt would
look after her.
جب سمبیگویرے کے والد گھر واپس آ گئے تو اسے اپنی بیٹئی کا کمرہ خالی ملا ‘کیا ہوا، انیتا؟’ اس نے افسُردہ دل سے پوچھا۔ عورت نے وضاحت کی کہ سمبیگویرے بھاگ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘میں چاہتی تھی کہ وہ میرا احترام کرے۔’ ‘لیکن شاید میں بہت سخت تھی۔’ سمبیگویرے کے باپ نے گھر چھوڑ دیا اور ندی کی سمت میں چلا گیا۔ وہ اپنی بہن کے گاؤں کی طرف چلتے گئے کہ شائد کسی نے سمبیگویرے کو دیکھا ہو۔
When Simbegwire’s father returned
home, he found her room empty.
“What happened, Anita?” he asked
with a heavy heart. The woman
explained that Simbegwire had run
away. “I wanted her to respect me,”
she said. “But perhaps I was too
strict.”
Simbegwire’s father left the house
and went in the direction of the
stream. He continued to his sister’s
village to find out if she had seen
Simbegwire.
جب اس کے والد نے دور سے دیکھا تو سمبیگویرے اپنے کزن کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ وہ خوفزدہ تھی کہ والد ناراض ہو سکتے ہیں، لہذا وہ گھر کے اندر چھپنے کے لیے بھاگ گئی۔ لیکن اس کے والد اس کے پاس گئے اور کہا، ‘سمبیگویرے، آپ نے اپنے لیے ایک بہترین ماں پائی ہے۔ جو آپ سے پیار کرتی ہے اور آپ کا حال جانتی ہے۔ مجھے تم پر فخر ہے اور میں تم سے پیار کرتا ہوں۔’ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ جب تک وہ چاہتی ہے اپنی پھپھو کے ساتھ رہ سکتی ہے۔
Simbegwire was playing with her
cousins when she saw her father
from far away. She was scared he
might be angry, so she ran inside
the house to hide.
But her father went to her and said,
“Simbegwire, you have found a
perfect mother for yourself. One
who loves you and understands
you. I am proud of you and I love
you.”
They agreed that Simbegwire would
stay with her aunt as long as she
wanted to.
اس کے والد ہر روز وہاں جاتے تھے۔ بالآخر وہ انیتا کے ساتھ آئے۔ وہ سمبیگویرے کی طرف بھاگی۔ انہوں نے کہا۔ ‘مجھے بہت افسوس ہے، میں غلط تھی۔’ ‘کیا آپ مجھے دوبارہ کوشش کرنے دیں گی؟’ سمبیگویرے نے اپنے والد اور ان کے پریشان کن چہرے کو دیکھا۔ پھر اس نے آہستہ آہستہ قدم بڑھایا اور انیتا کو گلے سے لگا لیا۔
Her father visited her every day.
Eventually, he came with Anita. She
reached out for Simbegwire’s hand.
“I’m so sorry little one, I was
wrong,” she cried. “Will you let me
try again?”
Simbegwire looked at her father
and his worried face. Then she
stepped forward slowly and put her
arms around Anita.
اگلے ہفتے انیتا نے سمبیگویرے اور اس کے کزن کو اوراس کی پھپھو کو اُن کے ساتھ کھانا کھانے کے لئے مدعو کیا۔ کیا دعوت ہے! انیتا نے سمبیگویرے کے پسندیدہ کھانے تیار کیے، اور ہر ایک نے خوب کھایا جب تک اُن کا پیٹ نہ بھرا گیا۔ پھر بچے کھیلتے رھے جبکہ بڑوں نے بات چیت کی۔ سمبیگویرے نے اپنے آپ کو خوش اور بہادر محسوس کیا۔ اس نے جلد ہی فیصلہ کیا کہ وہ جلد ہی گھر واپس آئے گی اور اپنے باپ اور سوتیلی ماں کے ساتھ رہے گی۔
The next week, Anita invited
Simbegwire, with her cousins and
aunt, to the house for a meal. What
a feast! Anita prepared all of
Simbegwire’s favourite foods, and
everyone ate until they were full.
Then the children played while the
adults talked.
Simbegwire felt happy and brave.
She decided that soon, very soon,
she would return home to live with
her father and her stepmother.